گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید |
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید |
اِس قدر تیز ہوا کے جھونکے |
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید |
جس کی باتوں کے فسانے لکھے |
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید |
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے |
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید |
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے |
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید |
خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم |
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید |
دل کا جو رنگ ہے، یہ رنگ اداؔ |
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید |
گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید |
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید |
اِس قدر تیز ہوا کے جھونکے |
شاخ پر پھول کھلا تھا شاید |
جس کی باتوں کے فسانے لکھے |
اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید |
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے |
وہم سا دل کو ہوا تھا شاید |
تجھ کو بھولے تو دعا تک بھولے |
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید |
خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم |
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید |
دل کا جو رنگ ہے، یہ رنگ اداؔ |
پہلے آنکھوں میں رچا تھا شاید |