دل بجھا ہے نہ آس کم کی ہے
یوں مداراتِ شامِ غم کی ہے
تجھ کو دیکھا تو اپنی یاد آئی
بدلیوں میں کرن سی چمکی ہے
کون جانے وہ آہ تھی کہ نگاہ
جو سرِ داستاں رقم کی ہے
کاسنی چاند اور گھنے بادل
آزمائش قدم قدم کی ہے
آندھیوں کو چراغ سونپ دیا
یہ کرامت بھی چشمِ نم کی ہے
زہرِ احساس تلخ تر ہو اداؔ
یہ کمائی بڑے کرم کی ہے
دل بجھا ہے نہ آس کم کی ہے
یوں مداراتِ شامِ غم کی ہے
تجھ کو دیکھا تو اپنی یاد آئی
بدلیوں میں کرن سی چمکی ہے
کون جانے وہ آہ تھی کہ نگاہ
جو سرِ داستاں رقم کی ہے
کاسنی چاند اور گھنے بادل
آزمائش قدم قدم کی ہے
آندھیوں کو چراغ سونپ دیا
یہ کرامت بھی چشمِ نم کی ہے
زہرِ احساس تلخ تر ہو اداؔ
یہ کمائی بڑے کرم کی ہے
دل بجھا ہے نہ آس کم کی ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more