اب تو وہ بھی بھول چکی ہے
دروازے کے آگے
جانے کب سے کھڑی ہے
جگ بیتے
یا صدیاں گزریں
دستک دیتے دیتے
ہاتھوں کی ہر پور ہے زخمی
اور ہتھیلی لال گلابوں جیسی
ہاتھ میں جتنی ریکھائیں تھیں
اتنی کرنیں پھوٹ رہی ہیں
جوگن بھی ہے بیراگن بھی
روپ سروپ سہا گن جیسا
   وہ تو یہ بھی بھول چکی ہے
   دستک کس نے دی تھی!
اب تو وہ بھی بھول چکی ہے
دروازے کے آگے
جانے کب سے کھڑی ہے
جگ بیتے
یا صدیاں گزریں
دستک دیتے دیتے
ہاتھوں کی ہر پور ہے زخمی
اور ہتھیلی لال گلابوں جیسی
ہاتھ میں جتنی ریکھائیں تھیں
اتنی کرنیں پھوٹ رہی ہیں
جوگن بھی ہے بیراگن بھی
روپ سروپ سہا گن جیسا
   وہ تو یہ بھی بھول چکی ہے
   دستک کس نے دی تھی!
دستک
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more