عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا |
جو دیپ تھا نگاہ کی پرچھائیوں میں تھا |
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا |
دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا |
اِک لمحۂ فسوں نے جلایا تھا جو دیا |
پھر عمر بھر خیال کی رعنائیوں میں تھا |
اِک خوابگوں سی دُھوپ تھی زخموں کی آنچ میں |
اک سائباں سا درد کی پروائیوں میں تھا |
دل کو بھی اک جراحتِ دل نے عطا کیا |
یہ حوصلہ کہ اپنے تماشائیوں میں تھا |
کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ |
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا |
اپنی گلی میں کیوں نہ کسی کو وہ مل سکا |
جواعتماد بادیہ پیمائیوں میں تھا |
اس عہدِ خود سپاس کا پوچھو ہو ماجرا |
مصروف آپ اپنی پذیرائیوں میں تھا |
اُس کے حضور شکر بھی آساں نہیں اداؔ |
وہ جو قریبِ جاں مری تنہائیوں میں تھا |
عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا |
جو دیپ تھا نگاہ کی پرچھائیوں میں تھا |
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا |
دل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا |
اِک لمحۂ فسوں نے جلایا تھا جو دیا |
پھر عمر بھر خیال کی رعنائیوں میں تھا |
اِک خوابگوں سی دُھوپ تھی زخموں کی آنچ میں |
اک سائباں سا درد کی پروائیوں میں تھا |
دل کو بھی اک جراحتِ دل نے عطا کیا |
یہ حوصلہ کہ اپنے تماشائیوں میں تھا |
کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ |
سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا |
اپنی گلی میں کیوں نہ کسی کو وہ مل سکا |
جواعتماد بادیہ پیمائیوں میں تھا |
اس عہدِ خود سپاس کا پوچھو ہو ماجرا |
مصروف آپ اپنی پذیرائیوں میں تھا |
اُس کے حضور شکر بھی آساں نہیں اداؔ |
وہ جو قریبِ جاں مری تنہائیوں میں تھا |