ٹھیر ہمدم! مرے کانوں میں صدا آتی ہے |
یہ صدائے شیریں |
کسی بچھڑے ہوئے، بسرے ہوئے ساتھی کی طرح |
جیسے ماضی کے نہاں خانے سے |
آپ ہی آپ، دبے پاؤں چلی آئی ہے |
یہ حسیں کوک، یہ دل دوز نوائے غمگیں |
مجھ سے مت پوچھ کہ میرے لیے کیا لائی ہے |
اجنبی دیس میں یادوں کا سہارا تو نہیں؟ |
یہ مرے خوابِ گزشتہ کا اشارہ تو نہیں؟ |
شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید |
تو مجھے دُور — بہت دُور لیے جاتی ہے |
میرے کھیتوں میں ہری کونپلیں پھوٹی ہوں گی |
کونپلیں، زندگیِ نو کے نشاں |
وہ جواں دھرتی کے سینے کی جواں سال ارماں |
اور بھونروں کی وہ گونج |
سچ بتا! کانوں کو کیا اب بھی بھلی لگتی ہے |
ریشمیں خوابوں سے یوں چونکتی ہوں گی کلیاں |
جیسے ہولے سے کوئی یاد چلی آئی ہے |
جیسے بے بات ہی آنکھوں میں نمی آجائے |
دل کے آنگن میں دبے پاؤں کوئی آجائے |
شیام روپی! تجھے شاید مرے محبوب چمن نے بھیجا |
گل نے بھیجا کہ سمن نے بھیجا—؟ |
تجھ سے کیا میری بہاروں نے کہا |
میرے غنچوں نے، مرے شعلہ عذاروں نے کہا |
شوخ کرنوں نے پتا میرا نہ پوچھا ہوگا—؟ |
نرم جھونکوں نے سندیسہ کوئی بھیجا ہوگا |
وہی راتیں مرے گیتوں نے نکھارا تھا جنھیں |
وہی صبحیں مرے ارماں نے سنوارا تھا جنھیں |
نغمہ و رنگ کی موجوں سے گریزاں تو نہیں |
سچ بتا! مجھ سے جدا ہو کے پریشاں تو نہیں—؟ |
شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید |
آج اس نے بھی مجھے خواب میں دیکھا شاید! |
(ایک بہت پرانی نظم) |
ٹھیر ہمدم! مرے کانوں میں صدا آتی ہے |
یہ صدائے شیریں |
کسی بچھڑے ہوئے، بسرے ہوئے ساتھی کی طرح |
جیسے ماضی کے نہاں خانے سے |
آپ ہی آپ، دبے پاؤں چلی آئی ہے |
یہ حسیں کوک، یہ دل دوز نوائے غمگیں |
مجھ سے مت پوچھ کہ میرے لیے کیا لائی ہے |
اجنبی دیس میں یادوں کا سہارا تو نہیں؟ |
یہ مرے خوابِ گزشتہ کا اشارہ تو نہیں؟ |
شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید |
تو مجھے دُور — بہت دُور لیے جاتی ہے |
میرے کھیتوں میں ہری کونپلیں پھوٹی ہوں گی |
کونپلیں، زندگیِ نو کے نشاں |
وہ جواں دھرتی کے سینے کی جواں سال ارماں |
اور بھونروں کی وہ گونج |
سچ بتا! کانوں کو کیا اب بھی بھلی لگتی ہے |
ریشمیں خوابوں سے یوں چونکتی ہوں گی کلیاں |
جیسے ہولے سے کوئی یاد چلی آئی ہے |
جیسے بے بات ہی آنکھوں میں نمی آجائے |
دل کے آنگن میں دبے پاؤں کوئی آجائے |
شیام روپی! تجھے شاید مرے محبوب چمن نے بھیجا |
گل نے بھیجا کہ سمن نے بھیجا—؟ |
تجھ سے کیا میری بہاروں نے کہا |
میرے غنچوں نے، مرے شعلہ عذاروں نے کہا |
شوخ کرنوں نے پتا میرا نہ پوچھا ہوگا—؟ |
نرم جھونکوں نے سندیسہ کوئی بھیجا ہوگا |
وہی راتیں مرے گیتوں نے نکھارا تھا جنھیں |
وہی صبحیں مرے ارماں نے سنوارا تھا جنھیں |
نغمہ و رنگ کی موجوں سے گریزاں تو نہیں |
سچ بتا! مجھ سے جدا ہو کے پریشاں تو نہیں—؟ |
شیام روپی! تجھے معلوم نہ ہوگا شاید |
آج اس نے بھی مجھے خواب میں دیکھا شاید! |
(ایک بہت پرانی نظم) |