کہ تو آج اپنے سائے تک سے لرزاں ہے
سیہ نفرت کی زنجیرِ گراں پہنے
زمانے بھر میں سر گرداں
زمانے بھر سے نالاں ہے
کبھی نیلے سمندر سے نہنگ اُمڈے
کبھی اُودی گھٹاؤں سے لہو برسا
یہ عالم ہے کہ آئینوں سے خوف آیا
اندھیرا سا اندھیرا ہے
   اگر میری طرف دیکھے
   مجھے پلکیں اُٹھانے دے
   تو شاید میری آنکھوں میں
   وہ کرنیں تجھ کو مل جائیں
بھری دُنیا میں تو جن کو گنوا بیٹھا
مرے ہاتھوں میں ہیں اوراقِ گم گشتہ تمنا کے
نویدِ صبح فردا کے
کہ میں انسان کی پہلی وفا
   پہلی محبت کی نشانی ہوں!
کہ تو آج اپنے سائے تک سے لرزاں ہے
سیہ نفرت کی زنجیرِ گراں پہنے
زمانے بھر میں سر گرداں
زمانے بھر سے نالاں ہے
کبھی نیلے سمندر سے نہنگ اُمڈے
کبھی اُودی گھٹاؤں سے لہو برسا
یہ عالم ہے کہ آئینوں سے خوف آیا
اندھیرا سا اندھیرا ہے
   اگر میری طرف دیکھے
   مجھے پلکیں اُٹھانے دے
   تو شاید میری آنکھوں میں
   وہ کرنیں تجھ کو مل جائیں
بھری دُنیا میں تو جن کو گنوا بیٹھا
مرے ہاتھوں میں ہیں اوراقِ گم گشتہ تمنا کے
نویدِ صبح فردا کے
کہ میں انسان کی پہلی وفا
   پہلی محبت کی نشانی ہوں!
اگر میری طرف دیکھے…
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more