وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے

وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے
اب کیا ہوا کہ دل کو غمِ نارسائی دے
بیتے ہوئے دنوں کی نشانی کوئی تو ہو
پھر زخم کا گلاب ہمیں رونمائی دے
یہ بے حسی کا دور ہے لیکن کبھی کبھی
بھولے سے کوئی یاد ہی آکر دہائی دے
یہ خامشی تو قہر ہے ، اہلِ معاملہ!
لب پر کسی کے نام کسی کا سنائی دے
دہشت نے لخت لخت کیا ہر یقین کو
اب درد اہلِ جاں کی کسے پیشوائی دے
سب اجنبی ہوئے ہیں تو پہچان کے لیے
کوئی وفا کو حوصلۂ بے وفائی دے
یوں ہو کہ زندگی پہ بھروسا تو کر سکیں
کوئی تو ہو جو عشق کو پھر دل رُبائی دے
دیکھو اداؔ کہ درد کی زنجیر ایک ہے
اب کون کس کو خلعتِ ناآشنائی دے
وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے
اب کیا ہوا کہ دل کو غمِ نارسائی دے
بیتے ہوئے دنوں کی نشانی کوئی تو ہو
پھر زخم کا گلاب ہمیں رونمائی دے
یہ بے حسی کا دور ہے لیکن کبھی کبھی
بھولے سے کوئی یاد ہی آکر دہائی دے
یہ خامشی تو قہر ہے ، اہلِ معاملہ!
لب پر کسی کے نام کسی کا سنائی دے
دہشت نے لخت لخت کیا ہر یقین کو
اب درد اہلِ جاں کی کسے پیشوائی دے
سب اجنبی ہوئے ہیں تو پہچان کے لیے
کوئی وفا کو حوصلۂ بے وفائی دے
یوں ہو کہ زندگی پہ بھروسا تو کر سکیں
کوئی تو ہو جو عشق کو پھر دل رُبائی دے
دیکھو اداؔ کہ درد کی زنجیر ایک ہے
اب کون کس کو خلعتِ ناآشنائی دے
وہ خواب جو کبھی ہمیں معجز نمائی دے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more