تم اب میرے سرھانے |
موتیا کے پھول رکھنا بھول جاتے ہو |
سویرا ہو تو کیسے ہو |
اجالا اب مرے دل تک نہیں آتا |
دھنک کے رنگ آنچل سے پھسل کر گر چکے ہیں |
مسافر خواب کو رستہ مرے گھر کا نہیں ملتا |
کوئی شیریں نوا طائر |
کسی رُت کا سندیسا اب نہیں لاتا |
فقط اک درد کا موسم |
فقط اک غم کی پروائی |
کسی خوشبو کا لہجہ اب |
سخن مجھ سے نہیں کرتا |
جو روز و شب سے رشتے تھے |
وہ پہچانے نہیں جاتے |
نہ جانے کتنے دن گزرے |
نہ جانے کون یگ بیتا |
کہ اب موج ہوا مجھ سے مخاطب ہی نہیں ہوتی |
تو کیا سب آئنے ٹوٹے |
تو کیا اب یہ زمین و آسماں بدلے |
یہ سناٹا، اندھیرا اور تنہائی |
یہ ویرانی |
تمھارے بس میں تھا کارِ مسیحائی |
نہ جانے تم کہاں ہو |
میں کہاں ہوں |
تمھیں یادوں کے گجرے اب کہاں بھیجوں! |
تم اب میرے سرھانے |
موتیا کے پھول رکھنا بھول جاتے ہو |
سویرا ہو تو کیسے ہو |
اجالا اب مرے دل تک نہیں آتا |
دھنک کے رنگ آنچل سے پھسل کر گر چکے ہیں |
مسافر خواب کو رستہ مرے گھر کا نہیں ملتا |
کوئی شیریں نوا طائر |
کسی رُت کا سندیسا اب نہیں لاتا |
فقط اک درد کا موسم |
فقط اک غم کی پروائی |
کسی خوشبو کا لہجہ اب |
سخن مجھ سے نہیں کرتا |
جو روز و شب سے رشتے تھے |
وہ پہچانے نہیں جاتے |
نہ جانے کتنے دن گزرے |
نہ جانے کون یگ بیتا |
کہ اب موج ہوا مجھ سے مخاطب ہی نہیں ہوتی |
تو کیا سب آئنے ٹوٹے |
تو کیا اب یہ زمین و آسماں بدلے |
یہ سناٹا، اندھیرا اور تنہائی |
یہ ویرانی |
تمھارے بس میں تھا کارِ مسیحائی |
نہ جانے تم کہاں ہو |
میں کہاں ہوں |
تمھیں یادوں کے گجرے اب کہاں بھیجوں! |