وصال و ہجر کے موسم
طلسمِ خود پذیرائی کے موسم میں
وصال و ہجر آساں تھے
اُسی نادان دانائی کے موسم میں
ہوا کے ہاتھ سے
بادل کے ٹکڑے جوڑ کر میں نے
کبھی اک گھر بنایا تھا
وہیں پر نیل ساگر کے کنارے
تم کو پہلی بار دیکھا تھا
پھر اس کے بعد صدیوں تک
تمھاری راہ دیکھی تھی
پھر اس کے بعد کتنے مہرباں لمحے
صبا کے ہم سفر ہم نے گزارے ہیں
اور اکثر بے وفا دن بھی بہ حکمِ زندگانی
آندھیوں کے ساتھ کاٹے ہیں
تمھارے ساتھ اندھیروں سے بھی تنویریں تراشی ہیں
چٹانوں سے دعا چہروں کی تصویریں تراشی ہیں
تمھارا ہاتھ تھامے
آج اچانک دھیان آیا ہے
کہ تم سے پوچھ ہی لیتی
مری آنکھیں تو ہیں گروی
مگر ان دل رُبا اُجلے دھندلکوں میں
کبھی تم نے مجھے دیکھا؟
مجھے تم نے کبھی دیکھا!؟
وصال و ہجر کے موسم
طلسمِ خود پذیرائی کے موسم میں
وصال و ہجر آساں تھے
اُسی نادان دانائی کے موسم میں
ہوا کے ہاتھ سے
بادل کے ٹکڑے جوڑ کر میں نے
کبھی اک گھر بنایا تھا
وہیں پر نیل ساگر کے کنارے
تم کو پہلی بار دیکھا تھا
پھر اس کے بعد صدیوں تک
تمھاری راہ دیکھی تھی
پھر اس کے بعد کتنے مہرباں لمحے
صبا کے ہم سفر ہم نے گزارے ہیں
اور اکثر بے وفا دن بھی بہ حکمِ زندگانی
آندھیوں کے ساتھ کاٹے ہیں
تمھارے ساتھ اندھیروں سے بھی تنویریں تراشی ہیں
چٹانوں سے دعا چہروں کی تصویریں تراشی ہیں
تمھارا ہاتھ تھامے
آج اچانک دھیان آیا ہے
کہ تم سے پوچھ ہی لیتی
مری آنکھیں تو ہیں گروی
مگر ان دل رُبا اُجلے دھندلکوں میں
کبھی تم نے مجھے دیکھا؟
مجھے تم نے کبھی دیکھا!؟
وصال و ہجر کے موسم
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more