یہ تو سہی کہ شہر گُل دور، بہت ہی دور ہے

یہ تو سہی کہ شہر گُل دور ، بہت ہی دور ہے
دل کو یقین آ سکے ایسا بھی کیا ضرور ہے
اُس نے سنا سخن مرا ، میں نے ابھی کہا نہیں
وہ جو قریب و دُور ہے کتنا قریب و دُور ہے
یاد اور اور اُس کی یاد تو سیرِ چمن سے کم نہ تھی
دل کو نہ جانے کیا ہوا درد سے چُور چُور ہے
رات یہ جنگلوں کی ہے دھیان کی لَو جلی رہے
مہر و مہ و نجوم کے بس میں کہاں ظہور ہے
اُس کی نگاہ سے اداؔ معجزے رُونما ہوئے
یہ جو ہے میری بے بسی ، یہ جو مرا غرور ہے
یہ تو سہی کہ شہر گُل دور ، بہت ہی دور ہے
دل کو یقین آ سکے ایسا بھی کیا ضرور ہے
اُس نے سنا سخن مرا ، میں نے ابھی کہا نہیں
وہ جو قریب و دُور ہے کتنا قریب و دُور ہے
یاد اور اور اُس کی یاد تو سیرِ چمن سے کم نہ تھی
دل کو نہ جانے کیا ہوا درد سے چُور چُور ہے
رات یہ جنگلوں کی ہے دھیان کی لَو جلی رہے
مہر و مہ و نجوم کے بس میں کہاں ظہور ہے
اُس کی نگاہ سے اداؔ معجزے رُونما ہوئے
یہ جو ہے میری بے بسی ، یہ جو مرا غرور ہے
یہ تو سہی کہ شہر گُل دور، بہت ہی دور ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more