آنکھ دیوار ہوئی
کوئی بھی رنگ نگہ پر نہ کھلا
سجدۂ درد یہاں ہے نہ وہاں
عشق ہے کارِ زیاں
اے مرے قریۂ جاں!
نہ کسی طرزِ تخاطب کے صحیفے اُترے
نہ کسی حسنِ تغافل نے فسانے چھیڑے
نہ کہیں چاندنی چھٹکی
نہ کہیں دُھوپ ہی کُھل کر برسی
کوئی جگنو بھی نہیں، کوئی ستارہ بھی نہیں
جینے مرنے کا اشارہ بھی نہیں
حد تو یہ ہے کہ ابھی
غم کا سہارا بھی نہیں
اب ادھر سے کبھی گزری
تو صبا سوچے گی
شہرِ بے ہوش میں کیا
دل دھڑکنے کی صدا بھی نہ سنائی دے گی
کیا کسی در پہ محبت نہ دہائی دے گی
آنکھ دیوار ہوئی
کوئی بھی رنگ نگہ پر نہ کھلا
سجدۂ درد یہاں ہے نہ وہاں
عشق ہے کارِ زیاں
اے مرے قریۂ جاں!
نہ کسی طرزِ تخاطب کے صحیفے اُترے
نہ کسی حسنِ تغافل نے فسانے چھیڑے
نہ کہیں چاندنی چھٹکی
نہ کہیں دُھوپ ہی کُھل کر برسی
کوئی جگنو بھی نہیں، کوئی ستارہ بھی نہیں
جینے مرنے کا اشارہ بھی نہیں
حد تو یہ ہے کہ ابھی
غم کا سہارا بھی نہیں
اب ادھر سے کبھی گزری
تو صبا سوچے گی
شہرِ بے ہوش میں کیا
دل دھڑکنے کی صدا بھی نہ سنائی دے گی
کیا کسی در پہ محبت نہ دہائی دے گی
تو کیا اب ہم نہیں ہیں
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more