طلسمِ درد کی زنجیر سے رہائی نہ دے
جو مشتِ خاک ہے مولا اُسے خدائی نہ دے
اُتر نہ جائیں دل و جاں میں اتنے سناٹے
کہ پھر مجھے تری آواز تک سنائی نہ دے
لہو میں کتنے چراغوں کی لَو دھڑکتی ہے
میں نارسا سہی ، احساسِ نا رسائی نہ دے
کبھی تو دن کے اُجالے میں تو بھی دیکھ انھیں
نہیں تو پھر مرے خوابوں کو دل رُبائی نہ دے
نشیب میں ہو ، ذرا سی بلندیوں پہ چلو
یہاں سے شہر کا منظر ہمیں دکھائی نہ دے
کہے تو کون کہے سر پھری ہوا سے اداؔ
ہری ہے شاخ اسے موسمِ جدائی نہ دے
طلسمِ درد کی زنجیر سے رہائی نہ دے
جو مشتِ خاک ہے مولا اُسے خدائی نہ دے
اُتر نہ جائیں دل و جاں میں اتنے سناٹے
کہ پھر مجھے تری آواز تک سنائی نہ دے
لہو میں کتنے چراغوں کی لَو دھڑکتی ہے
میں نارسا سہی ، احساسِ نا رسائی نہ دے
کبھی تو دن کے اُجالے میں تو بھی دیکھ انھیں
نہیں تو پھر مرے خوابوں کو دل رُبائی نہ دے
نشیب میں ہو ، ذرا سی بلندیوں پہ چلو
یہاں سے شہر کا منظر ہمیں دکھائی نہ دے
کہے تو کون کہے سر پھری ہوا سے اداؔ
ہری ہے شاخ اسے موسمِ جدائی نہ دے
طلسمِ درد کی زنجیر سے رہائی نہ دے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more