کیا کبھی تم بھی رہے محشر ِتنہائی میں | ||
کیا کبھی تم نے بھی | ||
دیوار پہ ناخن سے کوئی خواب لکھا | ||
اور سناٹوں سے باتیں کی ہیں | ||
درد نے روزنِ مژگاں سے اُجالے مانگے | ||
اوراندھیروں کی ردائیں اوڑھیں | ||
کیا کبھی تم بھی کسی غم کے خریدار رہے | ||
میری بات اور ہے | ||
میں نے تو محبت کی ہے | ||
میں نے ہر دُکھ کو سمیٹا ہے امانت کی طرح | ||
غم کی تلاوت کی ہے | ||
سب نے آنسو جنھیں سمجھا | ||
وہ ستارے تھے مرے راہ نما | ||
سانس لینے کو ترستی بھی رہی | ||
اور ہوا نامۂ محبوب سی تھی | ||
میں نے تو اپنی طرف یوں دیکھا | ||
وہ تمھاری ہی نگہ ہو جیسے | ||
کچے ریشم کی سبھی زنجیریں | ||
میرا سرمایہ رہیں | ||
گھر کے دالانوں میں آنگن میں | ||
ادھوری سی کہانی | ||
کسی بھٹکی ہوئی خوشبو | ||
کسی گم گشتہ تمنا کی طرح پھرتی رہی | ||
دیکھو ہر روزنِ دیوار میں | ||
آنکھیں ہیں مری | ||
دُھوپ برہم ہی سہی | ||
میں تو گھنی چھاؤں بھی تھی | ||
کھلتی کلیوں کے لیے | ||
پھوٹتی کونپل کے لیے | ||
تم جہاں بھی تھے مرے پاس رہے | ||
زندگی سے مرا رشتہ کبھی ٹوٹا ہی نہیں | ||
تم بھی پلٹے ہو کسی رنجِ سفر سے اب کے | ||
میرے تلوے بھی ہیں چھالوں سے بھرے | ||
میری جھولی میں ہیں کنکر بھی بہت | ||
اور چبھتے ہوئے کانٹے بھی بہت | ||
اور دیکھو تو سہی | ||
میرے آنچل میں | ||
سحر خیز شگوفے بھی بہت | ||
اب مری آنکھیں، مرے خواب | ||
میری سوغات بھی ہیں | ||
اور مرا ورثہ بھی | ||
آشنا لذتِ تکمیل سے ہوں | ||
تھک گئے ہو تو قریب آجاؤ | ||
تھام لو ہاتھ مرا! |
کیا کبھی تم بھی رہے محشر ِتنہائی میں | ||
کیا کبھی تم نے بھی | ||
دیوار پہ ناخن سے کوئی خواب لکھا | ||
اور سناٹوں سے باتیں کی ہیں | ||
درد نے روزنِ مژگاں سے اُجالے مانگے | ||
اوراندھیروں کی ردائیں اوڑھیں | ||
کیا کبھی تم بھی کسی غم کے خریدار رہے | ||
میری بات اور ہے | ||
میں نے تو محبت کی ہے | ||
میں نے ہر دُکھ کو سمیٹا ہے امانت کی طرح | ||
غم کی تلاوت کی ہے | ||
سب نے آنسو جنھیں سمجھا | ||
وہ ستارے تھے مرے راہ نما | ||
سانس لینے کو ترستی بھی رہی | ||
اور ہوا نامۂ محبوب سی تھی | ||
میں نے تو اپنی طرف یوں دیکھا | ||
وہ تمھاری ہی نگہ ہو جیسے | ||
کچے ریشم کی سبھی زنجیریں | ||
میرا سرمایہ رہیں | ||
گھر کے دالانوں میں آنگن میں | ||
ادھوری سی کہانی | ||
کسی بھٹکی ہوئی خوشبو | ||
کسی گم گشتہ تمنا کی طرح پھرتی رہی | ||
دیکھو ہر روزنِ دیوار میں | ||
آنکھیں ہیں مری | ||
دُھوپ برہم ہی سہی | ||
میں تو گھنی چھاؤں بھی تھی | ||
کھلتی کلیوں کے لیے | ||
پھوٹتی کونپل کے لیے | ||
تم جہاں بھی تھے مرے پاس رہے | ||
زندگی سے مرا رشتہ کبھی ٹوٹا ہی نہیں | ||
تم بھی پلٹے ہو کسی رنجِ سفر سے اب کے | ||
میرے تلوے بھی ہیں چھالوں سے بھرے | ||
میری جھولی میں ہیں کنکر بھی بہت | ||
اور چبھتے ہوئے کانٹے بھی بہت | ||
اور دیکھو تو سہی | ||
میرے آنچل میں | ||
سحر خیز شگوفے بھی بہت | ||
اب مری آنکھیں، مرے خواب | ||
میری سوغات بھی ہیں | ||
اور مرا ورثہ بھی | ||
آشنا لذتِ تکمیل سے ہوں | ||
تھک گئے ہو تو قریب آجاؤ | ||
تھام لو ہاتھ مرا! |