مری موت تو روز مرہ کا اک واقعہ ہے |
کبھی انفرادی کبھی اجتماعی |
سو تم اپنا دل کیوں دُکھاؤ |
یہ دھرتی مرے خون سے آج رنگیں سہی |
مگر اگلے موسم |
کسی اگلے موسم میں |
بارش کی بوچھار خود ہی |
مری رہ گزاروں کا منھ دھونے آجائے گی |
جو دُکھ ہے تو یہ ہے کہ اب کے برس |
بلکہ برسوں ہوئے |
چاند نے اپنا چہرہ مرے آسمان کو دکھایا |
نہ سورج کا رتھ اس طرف ہو کے گزرا |
نہ بستی نے اُجلا بچھونا بچھایا |
نہ دل کے کواڑوں پہ دستک کی آواز آئی |
نہ آنکھوں میں تصویر ہی کوئی باقی رہی |
نہ جانے کہاں کوئی دیوار حائل ہوئی |
دُعا بے یقینی سے گھائل ہوئی |
اندھیروں سے ٹکرا کے مرتے رہے |
اور گرتے رہے ہم |
اکیلے نہ تھے |
اوراکیلے رہے ہم |
جو کچھ دُھند چھٹتی |
ہم اپنوں کے چہرے تو پہچان لیتے! |
مری موت تو روز مرہ کا اک واقعہ ہے |
کبھی انفرادی کبھی اجتماعی |
سو تم اپنا دل کیوں دُکھاؤ |
یہ دھرتی مرے خون سے آج رنگیں سہی |
مگر اگلے موسم |
کسی اگلے موسم میں |
بارش کی بوچھار خود ہی |
مری رہ گزاروں کا منھ دھونے آجائے گی |
جو دُکھ ہے تو یہ ہے کہ اب کے برس |
بلکہ برسوں ہوئے |
چاند نے اپنا چہرہ مرے آسمان کو دکھایا |
نہ سورج کا رتھ اس طرف ہو کے گزرا |
نہ بستی نے اُجلا بچھونا بچھایا |
نہ دل کے کواڑوں پہ دستک کی آواز آئی |
نہ آنکھوں میں تصویر ہی کوئی باقی رہی |
نہ جانے کہاں کوئی دیوار حائل ہوئی |
دُعا بے یقینی سے گھائل ہوئی |
اندھیروں سے ٹکرا کے مرتے رہے |
اور گرتے رہے ہم |
اکیلے نہ تھے |
اوراکیلے رہے ہم |
جو کچھ دُھند چھٹتی |
ہم اپنوں کے چہرے تو پہچان لیتے! |