(نذرِ شاہ حاتمؔ)
صبر آیا ، نہ تاب آوے ہے
نہ دُعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز ، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
دشتِ ہجراں سے دشتِ ہجراں تک
دل کو سارا نصاب آوے ہے
میں اندھیروں کو اوڑھ بھی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
اُس کو اِذنِ سخن نہیں ملتا
جس کو طرز خطاب آوے ہے
دل اُنھیں راستوں سے گزرے گا
جن پہ نسدن عذاب آوے ہے
اُس کے ہوتے بھی دل دُکھا ہے بہت
اُس سے کہتے حجاب آوے ہے
(نذرِ شاہ حاتمؔ)
صبر آیا ، نہ تاب آوے ہے
نہ دُعا کا جواب آوے ہے
اب خدائی ہے تیرے بندوں کی
روز ، یومِ حساب آوے ہے
جب سے پتھر ہوئے شجر میرے
شاخِ مژگاں گلاب آوے ہے
دشتِ ہجراں سے دشتِ ہجراں تک
دل کو سارا نصاب آوے ہے
میں اندھیروں کو اوڑھ بھی لیتی
راہ میں ماہتاب آوے ہے
اُس کو اِذنِ سخن نہیں ملتا
جس کو طرز خطاب آوے ہے
دل اُنھیں راستوں سے گزرے گا
جن پہ نسدن عذاب آوے ہے
اُس کے ہوتے بھی دل دُکھا ہے بہت
اُس سے کہتے حجاب آوے ہے
صبر آیا، نہ تاب آوے ہے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more