ستارہ زاد آنکھیں | ||
تم نے نہیں دیکھیں | ||
تم نے نہیں پڑھیں | ||
کنگن کے حلقوں کی تحریریں | ||
اُڑتے ہوئے رنگوں | ||
اور دم توڑتی ہوئی | ||
خوشبو کی آواز بھی نہیں سنی | ||
وہ کہہ رہی تھی | ||
یا شاید صرف سوچ رہی تھی | ||
ریشمیں ساڑیوں | ||
کم خواب لباسوں | ||
اور دیبا کی اوڑھنیوں سے | ||
میرے بدن کا رواں رواں چھل گیا ہے | ||
وقت کی چھلنی میں | ||
تھوڑی سی ریت باقی ہے | ||
کیا اب بھی میرے زخموں کے لیے | ||
کسی مرہم کی ساعت نہیں آئی | ||
کب تک گونگے آئینے کے سامنے بیٹھی رہوں | ||
دیواروں کے قرضے چکائے جا چکے | ||
یہاں وہاں دائروں میں نقوشِ قدم | ||
اب تو میں سالن اور موسم دونوں کا | ||
دھیان رکھتی ہوں | ||
کوتھمیر اور پودینے کا فرق بھی پہچان گئی ہوں | ||
ہتھیلی پر کوئی جگنو نہیں تو نہ سہی | ||
میری پلکیں امانت دار ہیں | ||
اور اب | ||
آندھیوں کے بازار میں جو آخری دیا | ||
جلتا ہوا باقی رہ گیا ہے | ||
اجازت دو | ||
کہ اِس دیے سے | ||
اپنی آخری رات روشن کولوں! |
ستارہ زاد آنکھیں | ||
تم نے نہیں دیکھیں | ||
تم نے نہیں پڑھیں | ||
کنگن کے حلقوں کی تحریریں | ||
اُڑتے ہوئے رنگوں | ||
اور دم توڑتی ہوئی | ||
خوشبو کی آواز بھی نہیں سنی | ||
وہ کہہ رہی تھی | ||
یا شاید صرف سوچ رہی تھی | ||
ریشمیں ساڑیوں | ||
کم خواب لباسوں | ||
اور دیبا کی اوڑھنیوں سے | ||
میرے بدن کا رواں رواں چھل گیا ہے | ||
وقت کی چھلنی میں | ||
تھوڑی سی ریت باقی ہے | ||
کیا اب بھی میرے زخموں کے لیے | ||
کسی مرہم کی ساعت نہیں آئی | ||
کب تک گونگے آئینے کے سامنے بیٹھی رہوں | ||
دیواروں کے قرضے چکائے جا چکے | ||
یہاں وہاں دائروں میں نقوشِ قدم | ||
اب تو میں سالن اور موسم دونوں کا | ||
دھیان رکھتی ہوں | ||
کوتھمیر اور پودینے کا فرق بھی پہچان گئی ہوں | ||
ہتھیلی پر کوئی جگنو نہیں تو نہ سہی | ||
میری پلکیں امانت دار ہیں | ||
اور اب | ||
آندھیوں کے بازار میں جو آخری دیا | ||
جلتا ہوا باقی رہ گیا ہے | ||
اجازت دو | ||
کہ اِس دیے سے | ||
اپنی آخری رات روشن کولوں! |