نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا

نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
مرے درد کی تب و تاب میں مجھے دیکھنا
میں نہ مل سکوں بھی تو کیا ہوا ، کہ فسانہ ہوں
نئی داستاں ، نئے باب میں مجھے دیکھنا
کسی وقت شامِ ملال میں مجھے سوچنا
کبھی رنگِ چشمِ پر آب میں مجھے دیکھنا
کسی رات ماہ و نجوم سے مجھے پوچھنا
کبھی صبحِ نو کی کتاب میں مجھے دیکھنا
میں جو رات بھر غمِ آفتابِ سحر میں تھی
اُسی شعلہ رُو کے عتاب میں مجھے دیکھنا
اسی دل سے ہو کے گزر گئے کئی کارواں
کئی ہجرتوں کے نصاب میں مجھے دیکھنا
مرے خار خار سوال میں مجھے ڈھونڈنا
مرے گیت میں ، مرے خواب میں مجھے دیکھنا
مرے آنسوؤں نے بجھائی تھی مری تشنگی
اسی برگزیدہ سحاب میں مجھے دیکھنا
وہی ایک لمحۂ دید تھا کہ رُکا رہا
مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا
جو تڑپ تمھیں کسی آئنے میں نہ مل سکے
تو پھر آئنے کے جواب میں مجھے دیکھنا
نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
مرے درد کی تب و تاب میں مجھے دیکھنا
میں نہ مل سکوں بھی تو کیا ہوا ، کہ فسانہ ہوں
نئی داستاں ، نئے باب میں مجھے دیکھنا
کسی وقت شامِ ملال میں مجھے سوچنا
کبھی رنگِ چشمِ پر آب میں مجھے دیکھنا
کسی رات ماہ و نجوم سے مجھے پوچھنا
کبھی صبحِ نو کی کتاب میں مجھے دیکھنا
میں جو رات بھر غمِ آفتابِ سحر میں تھی
اُسی شعلہ رُو کے عتاب میں مجھے دیکھنا
اسی دل سے ہو کے گزر گئے کئی کارواں
کئی ہجرتوں کے نصاب میں مجھے دیکھنا
مرے خار خار سوال میں مجھے ڈھونڈنا
مرے گیت میں ، مرے خواب میں مجھے دیکھنا
مرے آنسوؤں نے بجھائی تھی مری تشنگی
اسی برگزیدہ سحاب میں مجھے دیکھنا
وہی ایک لمحۂ دید تھا کہ رُکا رہا
مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا
جو تڑپ تمھیں کسی آئنے میں نہ مل سکے
تو پھر آئنے کے جواب میں مجھے دیکھنا
نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more