سو طرح کے دھندوں میں دن تو کٹ ہی جاتا ہے
دھیان بٹ ہی جاتا ہے
رات کے اندھیرے میں
سب جلے بجھے دیوے ٹمٹمانے لگتے ہیں
سامنے نگاہوں کے کھڑکیاں سی کھلتی ہیں
خواب جو کبھی دیکھے
رنگ جو نہیں برتے
نا رسا تمنائیں، دل شکن رویے بھی
پاس آہی جاتے ہیں سارے بے وفا لمحے
ڈوب ڈوب جاتے ہیں
اُجلے اُجلے آئینے
زندگی کے سو چہرے
زندگی کو سو چو تو
اور بھی دریچے ہیں
رات کے اندھیروں میں
دور دور کے منظر پاس آنے لگتے ہیں
صبح و شام کی خبریں
بات کرنے لگتی ہیں
کتنی عام سی خبریں
دُھول اَٹے ہوئے چہرے اور بے زبان آنکھیں
عارضوں کے ریشم پر آنسوؤں کی تحریریں
بے بسی کے صحرا میں خامشی کی آوازیں
دل سے کیا نہیں کہتیں
روز کے نظارے ہیں
قصرِ زر کی دیواریں
آنے والی کرنوں کی راہ روک لیتی ہیں
کیسی کیسی زنجیریں
کیسے کیسے زنداں ہیں
ہول ناک روز و شب
کنواریوں کے بالوں میں
ریت نے چنی افشاں
اور یوں بھی ہوتا ہے زرنگار محلوں میں
زرد زرد پھولوں سا ڈوبتا ہوا چہرہ
بازوؤں کے کنگن سے منجمد تبسم تک
نورتن کی مالا سے حسرتِ تکّلم تک
سانس خیر کیا لیتی آہنی فصیلوں میں
صرف زیب و زینت ہے
یہ کسی کی بیٹی ہے
خواب زندہ ہیں ورنہ
لوگ مر گئے ہوتے
راستوں میں دیکھو تو
پھول سے کئی پیکر
ننھے منے سودا گر
ایک دو نوالے کی آبرو کے رکھوالے
بھوک جھیلنے والے
خوانچوں میں لے آئے
کاغذی کھلونے بھی
گیند بھی غبارے بھی
نیلی پیلی کنٹھی بھی
چوڑیاں بھی کنگھی بھی
اور نہ جانے کیا کچھ ہے
بیچنے کو نکلے ہیں
یہ نحیف شانے جو گھر کا بوجھ اُٹھاتے ہیں
اور ایک یہ منظر دیکھنا ہی پڑتا ہے
خوف کا سیہ طائر
شہر بھر کی خوشیوں پر اپنے پنکھ پھیلائے
لمحہ لمحہ منڈ لائے
دیکھنا نہیں آساں
دیس کے گلی کوچوں
ہوگیا لہو ارزاں
وہ جو گھر سے نکلے تھے
لوٹ کر نہیں آئے
مانگ بجھ گئی کس کی
کوکھ اُجڑ گئی کس کی
گھر کے کچے آنگن میں
کھیلتا ہوا گل رُو
کیسے ہوگیا اوجھل
ماں کو کیا یقیں آئے
ڈھونڈتی ہوئی آنکھیں
کس سے جا کے پوچھیں گی
ایک ماں تو یہ بھی ہے
بخت سے جو ہاری ہے
آہنی درندوں سے کھیلتے ہوئے بیٹے
زیست کے تقدس کو روندتے ہوئے بیٹے
گھر کا راستہ بھولے
خواب چھن گیا جن سے
با وقار جینے کا
زندگی کے میلے میں سر اُٹھا کے چلنے کا
سیم و زر کی میزاں میں
ایک عمر محنت کا
کاغذی نمائندہ کام ہی نہیں آیا
خود کو بیچنے پہنچے ظلمتوں کی منڈی میں
دہشتوں کے جنگل میں
کھوگئیں سبھی قدریں
ماں کے گہرے زخموں کو
کس نے بھرتے دیکھا ہے
خالی ہاتھ ، خالی دل
آسماں کو تکتی ہے
رات ڈھلتی جاتی ہے
درد کی عدالت میں درد ہی گواہی ہے
وہ جو آنکھ نے دیکھا
اور جو نہیں دیکھا
کیا بیان کر پاؤں
سو طرح کے دھندوں میں دن تو کٹ ہی جاتا ہے
دھیان بٹ ہی جاتا ہے
رات کے اندھیرے میں
سب جلے بجھے دیوے ٹمٹمانے لگتے ہیں
سامنے نگاہوں کے کھڑکیاں سی کھلتی ہیں
خواب جو کبھی دیکھے
رنگ جو نہیں برتے
نا رسا تمنائیں، دل شکن رویے بھی
پاس آہی جاتے ہیں سارے بے وفا لمحے
ڈوب ڈوب جاتے ہیں
اُجلے اُجلے آئینے
زندگی کے سو چہرے
زندگی کو سو چو تو
اور بھی دریچے ہیں
رات کے اندھیروں میں
دور دور کے منظر پاس آنے لگتے ہیں
صبح و شام کی خبریں
بات کرنے لگتی ہیں
کتنی عام سی خبریں
دُھول اَٹے ہوئے چہرے اور بے زبان آنکھیں
عارضوں کے ریشم پر آنسوؤں کی تحریریں
بے بسی کے صحرا میں خامشی کی آوازیں
دل سے کیا نہیں کہتیں
روز کے نظارے ہیں
قصرِ زر کی دیواریں
آنے والی کرنوں کی راہ روک لیتی ہیں
کیسی کیسی زنجیریں
کیسے کیسے زنداں ہیں
ہول ناک روز و شب
کنواریوں کے بالوں میں
ریت نے چنی افشاں
اور یوں بھی ہوتا ہے زرنگار محلوں میں
زرد زرد پھولوں سا ڈوبتا ہوا چہرہ
بازوؤں کے کنگن سے منجمد تبسم تک
نورتن کی مالا سے حسرتِ تکّلم تک
سانس خیر کیا لیتی آہنی فصیلوں میں
صرف زیب و زینت ہے
یہ کسی کی بیٹی ہے
خواب زندہ ہیں ورنہ
لوگ مر گئے ہوتے
راستوں میں دیکھو تو
پھول سے کئی پیکر
ننھے منے سودا گر
ایک دو نوالے کی آبرو کے رکھوالے
بھوک جھیلنے والے
خوانچوں میں لے آئے
کاغذی کھلونے بھی
گیند بھی غبارے بھی
نیلی پیلی کنٹھی بھی
چوڑیاں بھی کنگھی بھی
اور نہ جانے کیا کچھ ہے
بیچنے کو نکلے ہیں
یہ نحیف شانے جو گھر کا بوجھ اُٹھاتے ہیں
اور ایک یہ منظر دیکھنا ہی پڑتا ہے
خوف کا سیہ طائر
شہر بھر کی خوشیوں پر اپنے پنکھ پھیلائے
لمحہ لمحہ منڈ لائے
دیکھنا نہیں آساں
دیس کے گلی کوچوں
ہوگیا لہو ارزاں
وہ جو گھر سے نکلے تھے
لوٹ کر نہیں آئے
مانگ بجھ گئی کس کی
کوکھ اُجڑ گئی کس کی
گھر کے کچے آنگن میں
کھیلتا ہوا گل رُو
کیسے ہوگیا اوجھل
ماں کو کیا یقیں آئے
ڈھونڈتی ہوئی آنکھیں
کس سے جا کے پوچھیں گی
ایک ماں تو یہ بھی ہے
بخت سے جو ہاری ہے
آہنی درندوں سے کھیلتے ہوئے بیٹے
زیست کے تقدس کو روندتے ہوئے بیٹے
گھر کا راستہ بھولے
خواب چھن گیا جن سے
با وقار جینے کا
زندگی کے میلے میں سر اُٹھا کے چلنے کا
سیم و زر کی میزاں میں
ایک عمر محنت کا
کاغذی نمائندہ کام ہی نہیں آیا
خود کو بیچنے پہنچے ظلمتوں کی منڈی میں
دہشتوں کے جنگل میں
کھوگئیں سبھی قدریں
ماں کے گہرے زخموں کو
کس نے بھرتے دیکھا ہے
خالی ہاتھ ، خالی دل
آسماں کو تکتی ہے
رات ڈھلتی جاتی ہے
درد کی عدالت میں درد ہی گواہی ہے
وہ جو آنکھ نے دیکھا
اور جو نہیں دیکھا
کیا بیان کر پاؤں
جلے بجھے دیوے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more