ہوا کے سامنے ہر رنگ کم ادا ٹھہرے |
بس اک چراغ کہ ہے شعلۂ نوا ٹھہرے |
عجیب آئنہ خانہ ہیں گھر کی دیواریں |
کہ دل دُکھے بھی تو اپنا ہی سامنا ٹھہرے |
کہ جیسے وقت نے وعدہ کوئی لیا ہی نہ تھا |
اُسی کو یاد کیا جس کو بھولنا ٹھہرے |
وہ روز و شب بھی کہ جن سے شکایتیں تھیں بہت |
اب اتنی دُور سے دیکھا تو دل کشا ٹھہرے |
کڑی تھی دُھوپ ، ہواؤں کی سانس رُکتی تھی |
تری گلی تھی جو تیرے برہنہ پا ٹھہرے |
ہوا کے سامنے ہر رنگ کم ادا ٹھہرے |
بس اک چراغ کہ ہے شعلۂ نوا ٹھہرے |
عجیب آئنہ خانہ ہیں گھر کی دیواریں |
کہ دل دُکھے بھی تو اپنا ہی سامنا ٹھہرے |
کہ جیسے وقت نے وعدہ کوئی لیا ہی نہ تھا |
اُسی کو یاد کیا جس کو بھولنا ٹھہرے |
وہ روز و شب بھی کہ جن سے شکایتیں تھیں بہت |
اب اتنی دُور سے دیکھا تو دل کشا ٹھہرے |
کڑی تھی دُھوپ ، ہواؤں کی سانس رُکتی تھی |
تری گلی تھی جو تیرے برہنہ پا ٹھہرے |