ہر ایک قطرۂ خوں سے دیے جلائے ہوئے

ہر ایک قطرۂ خوں سے دیے جلائے ہوئے
یہ کون لوگ ہیں ، کن بستیوں سے آئے ہوئے
تمھیں خبر نہ ہوئی ، ہم نے انتظار کیا
تمھاری راہ میں کتنے فلک بچھائے ہوئے
ستارے کیا کہ یہاں دشتِ ماہتاب بھی ہے
ہماری آنکھ ہے کتنے ہنر چھپائے ہوئے
یقین کیوں نہیں آتا کہ سچ ہے اب بھی وہی
زمانہ گزرا ہے جس پر یقین لائے ہوئے
تو کیا ابھی ہمیں آدابِ غم بھی سیکھنا ہیں
فگار دل کے ہر اعزاز کو بھلائے ہوئے
تو کیا ہوائیں سندیسا کوئی نہ لائیں گی
جو چہرہ چہرہ اُجالے تھے کیا وہ سائے ہوئے
کھنڈر بھی دیکھو خزینے بہت ملیں گے تمھیں
یہ قریے اہلِ محبت کے تھے بسائے ہوئے
سفر طویل تھا لیکن سفر طویل سہی
میں آرہی ہوں زمانوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے
اداؔ حصار سے باہر قدم تو رکھنا تھا
کہ وقت پاس سے گزرا نظر بچائے ہوئے
ہر ایک قطرۂ خوں سے دیے جلائے ہوئے
یہ کون لوگ ہیں ، کن بستیوں سے آئے ہوئے
تمھیں خبر نہ ہوئی ، ہم نے انتظار کیا
تمھاری راہ میں کتنے فلک بچھائے ہوئے
ستارے کیا کہ یہاں دشتِ ماہتاب بھی ہے
ہماری آنکھ ہے کتنے ہنر چھپائے ہوئے
یقین کیوں نہیں آتا کہ سچ ہے اب بھی وہی
زمانہ گزرا ہے جس پر یقین لائے ہوئے
تو کیا ابھی ہمیں آدابِ غم بھی سیکھنا ہیں
فگار دل کے ہر اعزاز کو بھلائے ہوئے
تو کیا ہوائیں سندیسا کوئی نہ لائیں گی
جو چہرہ چہرہ اُجالے تھے کیا وہ سائے ہوئے
کھنڈر بھی دیکھو خزینے بہت ملیں گے تمھیں
یہ قریے اہلِ محبت کے تھے بسائے ہوئے
سفر طویل تھا لیکن سفر طویل سہی
میں آرہی ہوں زمانوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے
اداؔ حصار سے باہر قدم تو رکھنا تھا
کہ وقت پاس سے گزرا نظر بچائے ہوئے
ہر ایک قطرۂ خوں سے دیے جلائے ہوئے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more