گماں کے مرحلوں تک |
تم ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے |
دل کشا منظر ہمارے تھے |
خزینے خواب و خوشبو کے |
ہمارے زیر ِفرماں تھے |
عجب رشتہ وفا کا تھا |
جو خار و گل سے یکساں تھا |
سبھی موسم ہمارے تھے |
سحر اپنی تھی، شام اپنی |
تمھیں بھی یاد تو ہوگا |
اور اب یہ اجنبی شام و سحر |
اب ان سے کیا کہنا |
اور اپنے دل سے کیا کہنا |
ہمارے خواب سب رعنائیوں زیبائیوں |
دل داریوں کے حسن سے محروم و ترساں ہیں |
ہمارے لفظ حیراں اور یہ حیرانیاں ویراں |
کہ ہم حرفِ دعا تک بھول بیٹھے ہیں |
نگاہیں اب کسی سائل کی صورت ہیں |
مگر کوئی سخی ان کو نہیں ملتا |
گماں کے مرحلوں سے چند گام آگے |
یہ ہم کس اجنبی وادی میں آپہنچے |
گماں کے مرحلوں تک |
تم ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے |
دل کشا منظر ہمارے تھے |
خزینے خواب و خوشبو کے |
ہمارے زیر ِفرماں تھے |
عجب رشتہ وفا کا تھا |
جو خار و گل سے یکساں تھا |
سبھی موسم ہمارے تھے |
سحر اپنی تھی، شام اپنی |
تمھیں بھی یاد تو ہوگا |
اور اب یہ اجنبی شام و سحر |
اب ان سے کیا کہنا |
اور اپنے دل سے کیا کہنا |
ہمارے خواب سب رعنائیوں زیبائیوں |
دل داریوں کے حسن سے محروم و ترساں ہیں |
ہمارے لفظ حیراں اور یہ حیرانیاں ویراں |
کہ ہم حرفِ دعا تک بھول بیٹھے ہیں |
نگاہیں اب کسی سائل کی صورت ہیں |
مگر کوئی سخی ان کو نہیں ملتا |
گماں کے مرحلوں سے چند گام آگے |
یہ ہم کس اجنبی وادی میں آپہنچے |