گنے ہوئے تھے قدم، انحراف کیا ہوتا

گنے ہوئے تھے قدم ، انحراف کیا ہوتا
گناہ طرزِ نگہ تھا ، معاف کیا ہوتا
جھکی ہوئی مری آنکھیں ، سلے ہوئے مرے لب
اب اس سے بڑھ کے ترا اعتراف کیا ہوتا
خود اپنی وحشتِ جاں سے وفا نہ کی ہم نے
زمانہ اور ہمارے خلاف کیا ہوتا
دیے تو اب بھی دیے ہیں وہ بزم ہو کہ حرم
بجھے ہوئے دل و جاں سے طواف کیا ہوتا
ستارہ تھا بھی تو آنسو کا استعارہ تھا
کسی فلک کا یہاں انکشاف کیا ہوتا
لپکتے شعلوں کو بارش بجھا گئی ، لیکن
دُھواں جو لکھتا رہا ہے وہ صاف کیا ہوتا
وہی غبارِ تمناّ ، وہی شمیمِ دُعا
تو روز و شب میں مرے اختلاف کیا ہوتا
گنے ہوئے تھے قدم ، انحراف کیا ہوتا
گناہ طرزِ نگہ تھا ، معاف کیا ہوتا
جھکی ہوئی مری آنکھیں ، سلے ہوئے مرے لب
اب اس سے بڑھ کے ترا اعتراف کیا ہوتا
خود اپنی وحشتِ جاں سے وفا نہ کی ہم نے
زمانہ اور ہمارے خلاف کیا ہوتا
دیے تو اب بھی دیے ہیں وہ بزم ہو کہ حرم
بجھے ہوئے دل و جاں سے طواف کیا ہوتا
ستارہ تھا بھی تو آنسو کا استعارہ تھا
کسی فلک کا یہاں انکشاف کیا ہوتا
لپکتے شعلوں کو بارش بجھا گئی ، لیکن
دُھواں جو لکھتا رہا ہے وہ صاف کیا ہوتا
وہی غبارِ تمناّ ، وہی شمیمِ دُعا
تو روز و شب میں مرے اختلاف کیا ہوتا
گنے ہوئے تھے قدم، انحراف کیا ہوتا
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more