تھک گئی تھی |
اور چھالوں سے مرے تلوے بھرے تھے |
ادھر ناگن سی کالی رات |
میری سمت بڑھتی آرہی تھی |
ایسے میں تمھیں آواز دی |
اور پھر |
اُسے آواز دی |
جس نے کبھی تنہا نہیں چھوڑا |
اُسے آواز دی |
اور پھر وہیں |
ان سنگ ریزوں پر بچھا کر اوڑھنی |
اک گھر بنایا |
اپنا گھر... |
وہ جس کی چھت ستاروں سے مرصع تھی |
جڑے تھے جھلملاتے جگمگاتے |
اَن گنت روشن ستارے |
کہ جیسے آنکھ میں پہلی محبت کا اُجالا ہو |
سجل موسم کے آنے کا سندیسہ ہو |
ہوا کے نرم جھونکے |
مجھ سے باتیں کر رہے تھے |
محبت اور گھنیری چھاؤں |
اور اُجلے سنہرے دن کی سب باتیں |
وہ میری اور تمھاری داستاں تھی |
یا کسی سوکھی ہوئی ٹہنی پہ کوئی |
پھوٹتی کونپل تھی |
اور میں تھی |
کہ اپنی اور تمھاری داستاں |
سنتی رہی، سنتی رہی |
سنتی رہی... |
تھک گئی تھی |
اور چھالوں سے مرے تلوے بھرے تھے |
ادھر ناگن سی کالی رات |
میری سمت بڑھتی آرہی تھی |
ایسے میں تمھیں آواز دی |
اور پھر |
اُسے آواز دی |
جس نے کبھی تنہا نہیں چھوڑا |
اُسے آواز دی |
اور پھر وہیں |
ان سنگ ریزوں پر بچھا کر اوڑھنی |
اک گھر بنایا |
اپنا گھر... |
وہ جس کی چھت ستاروں سے مرصع تھی |
جڑے تھے جھلملاتے جگمگاتے |
اَن گنت روشن ستارے |
کہ جیسے آنکھ میں پہلی محبت کا اُجالا ہو |
سجل موسم کے آنے کا سندیسہ ہو |
ہوا کے نرم جھونکے |
مجھ سے باتیں کر رہے تھے |
محبت اور گھنیری چھاؤں |
اور اُجلے سنہرے دن کی سب باتیں |
وہ میری اور تمھاری داستاں تھی |
یا کسی سوکھی ہوئی ٹہنی پہ کوئی |
پھوٹتی کونپل تھی |
اور میں تھی |
کہ اپنی اور تمھاری داستاں |
سنتی رہی، سنتی رہی |
سنتی رہی... |