دستک ہوا کی ہو تو بہ طرزِ فغاں نہ ہو

دستک ہوا کی ہو تو بہ طرزِ فغاں نہ ہو
یا اتنا اعتبار ہو ، دل بدگماں نہ ہو
جھولی میں کچھ نہیں ہے تو اک آس ہی رہے
ایسی خبر سنا کہ دلوں کا زیاں نہ ہو
بستے گھروں سے دُور نہ تھا دشت بے اماں
میرے لہو کا رنگ اگر درمیاں نہ ہو
یوں تو ہوا کہ دُھوپ کے نیزے تھے اور میں
ایسا نہیں کہ سر پہ مرے سائباں نہ ہو
میری طرف نہ دیکھ مگر دیکھ لے ذرا
تحریرِ زخم زخم کہیں رائگاں نہ ہو
آئینے ایسا جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے
دل کا نگر بسے بھی تو دل سا مکاں نہ ہو
پلکوں پہ تھم سکے نہ اُجالے تو پھر اداؔ
منزل مسافروں کی کہاں ہو کہاں نہ ہو
دستک ہوا کی ہو تو بہ طرزِ فغاں نہ ہو
یا اتنا اعتبار ہو ، دل بدگماں نہ ہو
جھولی میں کچھ نہیں ہے تو اک آس ہی رہے
ایسی خبر سنا کہ دلوں کا زیاں نہ ہو
بستے گھروں سے دُور نہ تھا دشت بے اماں
میرے لہو کا رنگ اگر درمیاں نہ ہو
یوں تو ہوا کہ دُھوپ کے نیزے تھے اور میں
ایسا نہیں کہ سر پہ مرے سائباں نہ ہو
میری طرف نہ دیکھ مگر دیکھ لے ذرا
تحریرِ زخم زخم کہیں رائگاں نہ ہو
آئینے ایسا جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے
دل کا نگر بسے بھی تو دل سا مکاں نہ ہو
پلکوں پہ تھم سکے نہ اُجالے تو پھر اداؔ
منزل مسافروں کی کہاں ہو کہاں نہ ہو
دستک ہوا کی ہو تو بہ طرزِ فغاں نہ ہو
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more