(اُن بچوں کے نام جو رزق کی تلاش میں پردیسی ہوگئے)
اب لوٹ آؤ
دیکھو کہ تمھارے نقشِ قدم
بھیگی ہوئی گھاس کے سینے پر
اِس وقت نمایاں ہیں
دیکھو کہ گُلوں کے چہرے بھی
کرنوں کی تپش سے ترساں ہیں
سوچو کہ نسیم ِدوراں کو
آخر تو چال بدلنا ہے
سو چو کہ ابھی دن ڈھلنا ہے
ایسا نہ ہو مڑ کر دیکھو تو
خود اپنی نگہ اَن جان لگے
اک نقشِ قدم رہبر نہ بنے
ایسا نہ ہو گھر کی راہوں میں
یادوں کے ہزاروں ڈھیر ملیں
اس ڈھیر میں اپنے کوچے کو
تم جان نہ پاؤ
لوٹ آؤ
ایسا نہ ہو آنسو دُھول بنے
اس دُھول میں گھر کے آنگن کو
پہچان نہ پاؤ
لوٹ آؤ
ہاں اس کا بھی امکان تو ہے
جب رات پڑے
کجلائے ہوئے دیوٹ پہ دیا
جلتا نہ ملے!
(اُن بچوں کے نام جو رزق کی تلاش میں پردیسی ہوگئے)
اب لوٹ آؤ
دیکھو کہ تمھارے نقشِ قدم
بھیگی ہوئی گھاس کے سینے پر
اِس وقت نمایاں ہیں
دیکھو کہ گُلوں کے چہرے بھی
کرنوں کی تپش سے ترساں ہیں
سوچو کہ نسیم ِدوراں کو
آخر تو چال بدلنا ہے
سو چو کہ ابھی دن ڈھلنا ہے
ایسا نہ ہو مڑ کر دیکھو تو
خود اپنی نگہ اَن جان لگے
اک نقشِ قدم رہبر نہ بنے
ایسا نہ ہو گھر کی راہوں میں
یادوں کے ہزاروں ڈھیر ملیں
اس ڈھیر میں اپنے کوچے کو
تم جان نہ پاؤ
لوٹ آؤ
ایسا نہ ہو آنسو دُھول بنے
اس دُھول میں گھر کے آنگن کو
پہچان نہ پاؤ
لوٹ آؤ
ہاں اس کا بھی امکان تو ہے
جب رات پڑے
کجلائے ہوئے دیوٹ پہ دیا
جلتا نہ ملے!
بڑھتے ہوئے سائے
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more