اب لوٹ آؤ | ||
دیکھو کہ تمھارے نقشِ قدم | ||
بھیگی ہوئی گھاس کے سینے پر | ||
اِس وقت نمایاں ہیں | ||
دیکھو کہ گُلوں کے چہرے بھی | ||
کرنوں کی تپش سے ترساں ہیں | ||
سوچو کہ نسیم ِدوراں کو | ||
آخر تو چال بدلنا ہے | ||
سو چو کہ ابھی دن ڈھلنا ہے | ||
ایسا نہ ہو مڑ کر دیکھو تو | ||
خود اپنی نگہ اَن جان لگے | ||
اک نقشِ قدم رہبر نہ بنے | ||
ایسا نہ ہو گھر کی راہوں میں | ||
یادوں کے ہزاروں ڈھیر ملیں | ||
اس ڈھیر میں اپنے کوچے کو | ||
تم جان نہ پاؤ | ||
لوٹ آؤ | ||
ایسا نہ ہو آنسو دُھول بنے | ||
اس دُھول میں گھر کے آنگن کو | ||
پہچان نہ پاؤ | ||
لوٹ آؤ | ||
ہاں اس کا بھی امکان تو ہے | ||
جب رات پڑے | ||
کجلائے ہوئے دیوٹ پہ دیا | ||
جلتا نہ ملے! |
اب لوٹ آؤ | ||
دیکھو کہ تمھارے نقشِ قدم | ||
بھیگی ہوئی گھاس کے سینے پر | ||
اِس وقت نمایاں ہیں | ||
دیکھو کہ گُلوں کے چہرے بھی | ||
کرنوں کی تپش سے ترساں ہیں | ||
سوچو کہ نسیم ِدوراں کو | ||
آخر تو چال بدلنا ہے | ||
سو چو کہ ابھی دن ڈھلنا ہے | ||
ایسا نہ ہو مڑ کر دیکھو تو | ||
خود اپنی نگہ اَن جان لگے | ||
اک نقشِ قدم رہبر نہ بنے | ||
ایسا نہ ہو گھر کی راہوں میں | ||
یادوں کے ہزاروں ڈھیر ملیں | ||
اس ڈھیر میں اپنے کوچے کو | ||
تم جان نہ پاؤ | ||
لوٹ آؤ | ||
ایسا نہ ہو آنسو دُھول بنے | ||
اس دُھول میں گھر کے آنگن کو | ||
پہچان نہ پاؤ | ||
لوٹ آؤ | ||
ہاں اس کا بھی امکان تو ہے | ||
جب رات پڑے | ||
کجلائے ہوئے دیوٹ پہ دیا | ||
جلتا نہ ملے! |