وہ اک اندھیری مہیب شب تھی |
جو موجِ طوفاں قریب آئی |
تو ہم نے آنکھوں کی کشتیوں کو |
تمام دریا |
تمام ساگر عبور کرنا سکھا دیا تھا |
تمام خوابوں کو |
ڈوبنے سے بچا لیا تھا |
وہ خواب سارے |
جو خود شناسی کے آئنے تھے |
مگر یہ سب تو پرانے قصّے |
پرانی یادوں سے کیا ملے گا |
نہ جانے یہ کون سی گھڑی ہے |
کچھ ایسی آندھی چلی ہے اب کے |
سب آئنوں پر |
دبیز تہ گرد کی جمی ہے |
ہر ایک پہچان کھو چکی ہے |
سو آج کس سے |
ہم اپنے چہروں کی |
بھولی بسری کتاب مانگیں |
چراغ آنکھوں |
گلاب خوابوں کے آئنوں کا سراغ پوچھیں |
حساب چاہیں |
جواب مانگیں |
وہ اک اندھیری مہیب شب تھی |
جو موجِ طوفاں قریب آئی |
تو ہم نے آنکھوں کی کشتیوں کو |
تمام دریا |
تمام ساگر عبور کرنا سکھا دیا تھا |
تمام خوابوں کو |
ڈوبنے سے بچا لیا تھا |
وہ خواب سارے |
جو خود شناسی کے آئنے تھے |
مگر یہ سب تو پرانے قصّے |
پرانی یادوں سے کیا ملے گا |
نہ جانے یہ کون سی گھڑی ہے |
کچھ ایسی آندھی چلی ہے اب کے |
سب آئنوں پر |
دبیز تہ گرد کی جمی ہے |
ہر ایک پہچان کھو چکی ہے |
سو آج کس سے |
ہم اپنے چہروں کی |
بھولی بسری کتاب مانگیں |
چراغ آنکھوں |
گلاب خوابوں کے آئنوں کا سراغ پوچھیں |
حساب چاہیں |
جواب مانگیں |