یہ سامنے
پہلے عمارت تھی کوئی
اب اس کے کچھ آثار ہیں
گمٹی پہ دم بھر فاختہ نوحہ کناں
اور پھر یہاں کچھ بھی نہیں
بے آسرا تنہائیاں
اور گونجتی خاموشیاں
ہیں دُھول میں کچھ بال و پر
طائر نشیمن میں نہیں
کچھ دُور ہی اک ڈھیر ہے
قدموں تلے روندی ہوئی
اسکول کی کچھ کاپیاں
بکھری ہوئی کچھ دھجیّاں
ڈھونڈو اگر
کیا کچھ نہیں مل جائے گا
اس ڈھیر میں
بجھتی ہوئی آواز بھی
سہمے ہوئے الفاظ بھی
خونیں قبا پہنے ہوئے
عہدِ وفا کے آئنوں کی کرچیاں
اب کس کی آنکھوں خواب دیکھیں
لوگ ہیں
سفّاکیوں اور نفرتوں کے سامنے
مجبوریاں پہنے ہوئے
جو درد ہے
اس درد کی دارائیاں بھولے ہوئے
اک بے بسی اوڑھے ہوئے
اپنے ہر امکان سے ناآشنا دل
بے خبر اور بے سخن اور بے ہنر
خود رائگاں
بس معجزوں کا منتظر!
یہ سامنے
پہلے عمارت تھی کوئی
اب اس کے کچھ آثار ہیں
گمٹی پہ دم بھر فاختہ نوحہ کناں
اور پھر یہاں کچھ بھی نہیں
بے آسرا تنہائیاں
اور گونجتی خاموشیاں
ہیں دُھول میں کچھ بال و پر
طائر نشیمن میں نہیں
کچھ دُور ہی اک ڈھیر ہے
قدموں تلے روندی ہوئی
اسکول کی کچھ کاپیاں
بکھری ہوئی کچھ دھجیّاں
ڈھونڈو اگر
کیا کچھ نہیں مل جائے گا
اس ڈھیر میں
بجھتی ہوئی آواز بھی
سہمے ہوئے الفاظ بھی
خونیں قبا پہنے ہوئے
عہدِ وفا کے آئنوں کی کرچیاں
اب کس کی آنکھوں خواب دیکھیں
لوگ ہیں
سفّاکیوں اور نفرتوں کے سامنے
مجبوریاں پہنے ہوئے
جو درد ہے
اس درد کی دارائیاں بھولے ہوئے
اک بے بسی اوڑھے ہوئے
اپنے ہر امکان سے ناآشنا دل
بے خبر اور بے سخن اور بے ہنر
خود رائگاں
بس معجزوں کا منتظر!
اے دلِ بے ہنر
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more