اور کوئی دیا بجھے ، دیدۂ نم ابھی نہیں |
درد رفیق جاں رہے ، فرصتِ غم ابھی نہیں |
یوں بھی تو ہوکہ آئنہ اِس گھڑی گفتگو کرے |
ہم پہ ہوائے روز و شب چشم ِ کرم ابھی نہیں |
قصّہ وصال و ہجر کا اور کو کیوں سنائیں ہم |
اُس کی نگاہ سے گلہ اور بھی کم ابھی نہیں |
وہ جو چلا گیا تو اب لفظ مثالِ سنگ ہیں |
اور کہیں جاگتا ہوا اِن میں صنم ابھی نہیں |
سنتے ہیں صحنِ باغ میں پھول تو آج بھی کھلے |
بزم خیال بھی وہی ، بزم میں ہم ابھی نہیں |
قافلۂ بہار میں آبلہ پا کوئی نہیں |
اے دلِ دشت آشنا ، خواہشِ رم ابھی نہیں |
آج کا دن بھی کاٹ لوں ، آج بھی منتظر رہوں |
اک دو نفس ابھی کہاں ، اک دو قدم ابھی نہیں |
اور کوئی دیا بجھے ، دیدۂ نم ابھی نہیں |
درد رفیق جاں رہے ، فرصتِ غم ابھی نہیں |
یوں بھی تو ہوکہ آئنہ اِس گھڑی گفتگو کرے |
ہم پہ ہوائے روز و شب چشم ِ کرم ابھی نہیں |
قصّہ وصال و ہجر کا اور کو کیوں سنائیں ہم |
اُس کی نگاہ سے گلہ اور بھی کم ابھی نہیں |
وہ جو چلا گیا تو اب لفظ مثالِ سنگ ہیں |
اور کہیں جاگتا ہوا اِن میں صنم ابھی نہیں |
سنتے ہیں صحنِ باغ میں پھول تو آج بھی کھلے |
بزم خیال بھی وہی ، بزم میں ہم ابھی نہیں |
قافلۂ بہار میں آبلہ پا کوئی نہیں |
اے دلِ دشت آشنا ، خواہشِ رم ابھی نہیں |
آج کا دن بھی کاٹ لوں ، آج بھی منتظر رہوں |
اک دو نفس ابھی کہاں ، اک دو قدم ابھی نہیں |