لہو رنگ آنکھوں |
دوپٹے پہ کاجل کے دھبوں |
ہتھیلی کے بجھتے گلابوں کا قصہ |
کوئی دیکھتا پوچھتا |
اتنی فرصت کسی کو نہ تھی |
اور پھر عمر بھر |
اس کے چہرے پہ لکھا رہا |
مضمحل، منفعل سا تبسم |
وہاں اس قدر شور تنہائیوں کا رہا |
کہ اب اتفاقاً |
کسی نے کبھی اس سے احوال پوچھا |
مخاطب ہوا تو |
وہ اک چیخ بن کر بکھر جائے گی |
لہو رنگ آنکھوں |
دوپٹے پہ کاجل کے دھبوں |
ہتھیلی کے بجھتے گلابوں کا قصہ |
کوئی دیکھتا پوچھتا |
اتنی فرصت کسی کو نہ تھی |
اور پھر عمر بھر |
اس کے چہرے پہ لکھا رہا |
مضمحل، منفعل سا تبسم |
وہاں اس قدر شور تنہائیوں کا رہا |
کہ اب اتفاقاً |
کسی نے کبھی اس سے احوال پوچھا |
مخاطب ہوا تو |
وہ اک چیخ بن کر بکھر جائے گی |