وہ جو خوشبو سا تھا |
نودمیدہ شگوفوں کی آواز سا |
بس گلی تک گیا تھا |
وہ معصوم و ناداں |
گھڑی دو گھڑی کوگلی میں گیا تھا |
تو ماں کو کئی کام یاد آگئے تھے |
ادھورے کئی کام |
جو شام ہونے سے پہلے اسے ختم کرنا ہی تھے |
اور تھکن دھیان میں کیسے آتی |
کہ آتے ہوئے موسموں کے کئی دل رُبا راز |
ممتا کی آنکھوں میں تھے |
اور وہ طائروں تتلیوں کے تعاقب میں |
جانے کہاں تک گیا |
گھر میں واپس نہ آیا |
خبر آگئی |
لوریاں سننے والا |
دھماکوں کی آواز سن کر |
لہو کی گلابی ردا اُوڑھ کر سو گیا |
نفرتوں کو ہدف دیکھ لینے کی مہلت نہ تھی |
غضب کو نشانہ ضروری نہیں |
صرف اک رقصِ وحشت |
فقط دہشتِ بے اماں |
ٹوٹتی چوڑیاں |
خاک ہوتے ہوئے سائباں |
حرف بکھرے ہوئے |
آئنے کرچیاں کرچیاں |
جاں کا رنگِ یقیں، دل کا حسنِ بیاں |
اور وہ |
وہ جو کچے گھروندے کا مہتاب پارہ تھا |
سب کا مقدر لکھا جا چکا |
کتنی آنکھیں تھیں جو راستہ دیکھتی رہ گئیں |
اور اگلی سحر ایک سرخی تھی اخبار میں |
کہ حالات معمول ہی کے مطابق رہے |
شہر میں! |
وہ جو خوشبو سا تھا |
نودمیدہ شگوفوں کی آواز سا |
بس گلی تک گیا تھا |
وہ معصوم و ناداں |
گھڑی دو گھڑی کوگلی میں گیا تھا |
تو ماں کو کئی کام یاد آگئے تھے |
ادھورے کئی کام |
جو شام ہونے سے پہلے اسے ختم کرنا ہی تھے |
اور تھکن دھیان میں کیسے آتی |
کہ آتے ہوئے موسموں کے کئی دل رُبا راز |
ممتا کی آنکھوں میں تھے |
اور وہ طائروں تتلیوں کے تعاقب میں |
جانے کہاں تک گیا |
گھر میں واپس نہ آیا |
خبر آگئی |
لوریاں سننے والا |
دھماکوں کی آواز سن کر |
لہو کی گلابی ردا اُوڑھ کر سو گیا |
نفرتوں کو ہدف دیکھ لینے کی مہلت نہ تھی |
غضب کو نشانہ ضروری نہیں |
صرف اک رقصِ وحشت |
فقط دہشتِ بے اماں |
ٹوٹتی چوڑیاں |
خاک ہوتے ہوئے سائباں |
حرف بکھرے ہوئے |
آئنے کرچیاں کرچیاں |
جاں کا رنگِ یقیں، دل کا حسنِ بیاں |
اور وہ |
وہ جو کچے گھروندے کا مہتاب پارہ تھا |
سب کا مقدر لکھا جا چکا |
کتنی آنکھیں تھیں جو راستہ دیکھتی رہ گئیں |
اور اگلی سحر ایک سرخی تھی اخبار میں |
کہ حالات معمول ہی کے مطابق رہے |
شہر میں! |