کن تمناؤں ، دعاؤںکی سحر
آج جاگی ہے اُجالے کا سندیسہ لے کر
سترہ دن کی کہانی ہمدم!
سترہ سال پرانا قصہ
اور سوچو تو کئی صدیوں کا افسانہ تھا
دل ابھی حرمتِ احساس سے بیگانہ تھا
صدیاں لمحوں میں گزر جاتی ہیں قوموں کے لیے
اور کبھی ایک ہی لمحے کا فسوں
بے کراں ہوتا ہے آفاق پہ چھا جاتا ہے
قوم کو رسم ورہِ درد سکھا جاتا ہے
بے حسی موت ہے ، انساں کو جتا جاتا ہے
سترہ دن کی کہانی ہمدم!
مجھ سے پوچھو تو وہ بس ایک ہی لمحہ تھا کہ جب
اک جری قوم نے جینے کی قسم کھائی تھی
ایک ملت کے مقدر کا ستارا چمکا
ایک انسان کے سینے میں حمیت جاگی
سوگئی تھی جومحبت ، وہ محبت جاگی
میرے جاں باز جیالو ں نے سجائے زیور
فخر ناموسِ وطن ، میر ے جواں
سر سے باندھے ہوئے آئے تھے کفن میرے جواں
مائیں ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے قران بڑھیں
بہنیں دہلیز پہ ہو جانے کو قربان بڑھیں
حسنِ مغرور نے چپکے سے بڑھائے زیور
اور بچوں نے کیا اپنے سپاہی کو سلام
تھام لی ہاتھ میں ہر شخص نے قسمت کی زمام
پاک راہو ں پہ بہا تیرا لہو ، میرا لہو
یہ لہو تیرانہ تھا ، میرا نہ تھا
یہ امانت تھی زمیں کی سوزمیں کو سونپی
یہ ترا عہد ِ وفا تھا ہمدم!
یہ مرا عہد ِ وفا تھا ہمدم!
آج ہم جس سے سبک دوش ہوئے
مل کے مٹی میں لہو ایک ہوا
تفرقے جتنے تھے روپوش ہوئے
پاک مٹی کا نصیبہ جاگا
پاک مٹی گل و گلزاربنی
تیرگی چھائی تھی ہر سمت مگر چھٹ ہی گئی
رات بھاری مرے بیمار پہ تھی کٹ ہی گئی
اور شفق میرے شہیدوں کے لہو سے رنگیں
صبح کے ریشمیں آنچل پہ صباٹانک گئی
کل بھی پھوٹی تھی شفق ، کل بھی کھلے تھے غنچے
زرد سورج کی فسردہ کرنیں
کچھ در وبام کو چمکاتی تھیں
کچھ گلی کوچوں سے کترا کے گزر جاتی تھیں
پھول بے رنگ سے تھے ، سہمے ہوئے تھے غنچے
آج دیکھو تو سحر ، کیسی سحر ہے ہمدم!
آج ہر گل کی قبا ایک ہوئی
نغمہ سنجانِ گلستاں کی نوا ایک ہوئی
آج ہر ماتھے سے پھوٹی ہے اُجالے کی کرن
آج ہر سینہ ہے مہرِ تاباں
کوئی گوشہ مرے گلزار کا تاریک نہیں
آج ہر شخص کو معلوم ہے جینے کا چلن
آج ہر آنکھ صداقت کی طرف ہے نگراں
آج اشکوں پہ بھی شبنم کا گماں ہوتا ہے
آج ہر زخم پہ مرہم کا گماں ہوتا ہے
سترہ سال میں جوکچھ بھی گنوایا ہم نے
سترہ دن میں اسے جیت لیا!
(۱۹۶۵ء)
کن تمناؤں ، دعاؤںکی سحر
آج جاگی ہے اُجالے کا سندیسہ لے کر
سترہ دن کی کہانی ہمدم!
سترہ سال پرانا قصہ
اور سوچو تو کئی صدیوں کا افسانہ تھا
دل ابھی حرمتِ احساس سے بیگانہ تھا
صدیاں لمحوں میں گزر جاتی ہیں قوموں کے لیے
اور کبھی ایک ہی لمحے کا فسوں
بے کراں ہوتا ہے آفاق پہ چھا جاتا ہے
قوم کو رسم ورہِ درد سکھا جاتا ہے
بے حسی موت ہے ، انساں کو جتا جاتا ہے
سترہ دن کی کہانی ہمدم!
مجھ سے پوچھو تو وہ بس ایک ہی لمحہ تھا کہ جب
اک جری قوم نے جینے کی قسم کھائی تھی
ایک ملت کے مقدر کا ستارا چمکا
ایک انسان کے سینے میں حمیت جاگی
سوگئی تھی جومحبت ، وہ محبت جاگی
میرے جاں باز جیالو ں نے سجائے زیور
فخر ناموسِ وطن ، میر ے جواں
سر سے باندھے ہوئے آئے تھے کفن میرے جواں
مائیں ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے قران بڑھیں
بہنیں دہلیز پہ ہو جانے کو قربان بڑھیں
حسنِ مغرور نے چپکے سے بڑھائے زیور
اور بچوں نے کیا اپنے سپاہی کو سلام
تھام لی ہاتھ میں ہر شخص نے قسمت کی زمام
پاک راہو ں پہ بہا تیرا لہو ، میرا لہو
یہ لہو تیرانہ تھا ، میرا نہ تھا
یہ امانت تھی زمیں کی سوزمیں کو سونپی
یہ ترا عہد ِ وفا تھا ہمدم!
یہ مرا عہد ِ وفا تھا ہمدم!
آج ہم جس سے سبک دوش ہوئے
مل کے مٹی میں لہو ایک ہوا
تفرقے جتنے تھے روپوش ہوئے
پاک مٹی کا نصیبہ جاگا
پاک مٹی گل و گلزاربنی
تیرگی چھائی تھی ہر سمت مگر چھٹ ہی گئی
رات بھاری مرے بیمار پہ تھی کٹ ہی گئی
اور شفق میرے شہیدوں کے لہو سے رنگیں
صبح کے ریشمیں آنچل پہ صباٹانک گئی
کل بھی پھوٹی تھی شفق ، کل بھی کھلے تھے غنچے
زرد سورج کی فسردہ کرنیں
کچھ در وبام کو چمکاتی تھیں
کچھ گلی کوچوں سے کترا کے گزر جاتی تھیں
پھول بے رنگ سے تھے ، سہمے ہوئے تھے غنچے
آج دیکھو تو سحر ، کیسی سحر ہے ہمدم!
آج ہر گل کی قبا ایک ہوئی
نغمہ سنجانِ گلستاں کی نوا ایک ہوئی
آج ہر ماتھے سے پھوٹی ہے اُجالے کی کرن
آج ہر سینہ ہے مہرِ تاباں
کوئی گوشہ مرے گلزار کا تاریک نہیں
آج ہر شخص کو معلوم ہے جینے کا چلن
آج ہر آنکھ صداقت کی طرف ہے نگراں
آج اشکوں پہ بھی شبنم کا گماں ہوتا ہے
آج ہر زخم پہ مرہم کا گماں ہوتا ہے
سترہ سال میں جوکچھ بھی گنوایا ہم نے
سترہ دن میں اسے جیت لیا!
(۱۹۶۵ء)
سترہ دن
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more