بہار کھلکھلا اُٹھی
جنوں نواز بدلیوں کی چھاؤں میں
جنوں نواز بدلیوں کی چھاؤں میں بہار کھلکھلا اُٹھی
ہر ایک شاخِ لالہ زار سجدہ ریز ہوگئی
ہر ایک سجدہ ریز شاخسار پر طیور چہچہااُٹھے
ہوائے مرغزار گنگنا اُٹھی
فضائے نو بہار لہلہااُٹھی
ہوائے نوبہار میں ، فضائے مرغزار میں، حیات مسکرا اُٹھی
جنوں نوازیاں بڑھیں
فسانہ سازیاںبڑھیں
ادائے ناز کی کچھ اور بے نیازیاں بڑھیں
کچھ اس ادائے ناز سے بہار کھلکھلا اُٹھی
جنوں نواز اودی اودی بدلیوں کی چھاؤں میں!
مگر بہار کو ابھی تک آرزوئے نغمہ تھی
شہید کیف انتظار و جستجوئے نغمہ تھی
میں ساز ڈھونڈنے لگی
نوائے شوخ و مست ودل نواز ڈھونڈنے لگی
بصد غرور و افتخار و ناز ڈھونڈنے لگی
میں ساز ڈھونڈتی رہی
بہار کی فضاؤں میں
جنوں نوازبدلیوں کی بھینی بھینی چھاؤں میں
میں محوِجستجو رہی
مگر یہ میری بھول تھی
حیات اپنی رس بھری کہانیاں سنا چکی
ہوائے مرغزارلوریاں سنا کے جا چکی
فضائے نو بہار جامِ ارغواںلنڈھا چکی
بہار کی نشیلی انکھڑیوں میں نیند آچکی
مگر میں ڈھونڈتی رہی
مجھے وہ ساز دل نواز آج تک نہ مل سکا
وہ اودی اودی بدلیاں کہ فخرِ صد بہار تھیں
فلک کی چشم خوں فشاں سے اشک بن کے ڈھل گئیں
دکھائی دے رہی ہے کائنات کچھ لٹی لٹی
دُھویں کی بو سے ہے فضا کی سانس بھی گھٹی گھٹی
زمیں پہ شعلہ باریاں، فلک پہ گڑگڑاہٹیں
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام ِنوکی آہٹیں
بہار بیت ہی چکی خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں
نظامِ نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں!؟
بہار کھلکھلا اُٹھی
جنوں نواز بدلیوں کی چھاؤں میں
جنوں نواز بدلیوں کی چھاؤں میں بہار کھلکھلا اُٹھی
ہر ایک شاخِ لالہ زار سجدہ ریز ہوگئی
ہر ایک سجدہ ریز شاخسار پر طیور چہچہااُٹھے
ہوائے مرغزار گنگنا اُٹھی
فضائے نو بہار لہلہااُٹھی
ہوائے نوبہار میں ، فضائے مرغزار میں، حیات مسکرا اُٹھی
جنوں نوازیاں بڑھیں
فسانہ سازیاںبڑھیں
ادائے ناز کی کچھ اور بے نیازیاں بڑھیں
کچھ اس ادائے ناز سے بہار کھلکھلا اُٹھی
جنوں نواز اودی اودی بدلیوں کی چھاؤں میں!
مگر بہار کو ابھی تک آرزوئے نغمہ تھی
شہید کیف انتظار و جستجوئے نغمہ تھی
میں ساز ڈھونڈنے لگی
نوائے شوخ و مست ودل نواز ڈھونڈنے لگی
بصد غرور و افتخار و ناز ڈھونڈنے لگی
میں ساز ڈھونڈتی رہی
بہار کی فضاؤں میں
جنوں نوازبدلیوں کی بھینی بھینی چھاؤں میں
میں محوِجستجو رہی
مگر یہ میری بھول تھی
حیات اپنی رس بھری کہانیاں سنا چکی
ہوائے مرغزارلوریاں سنا کے جا چکی
فضائے نو بہار جامِ ارغواںلنڈھا چکی
بہار کی نشیلی انکھڑیوں میں نیند آچکی
مگر میں ڈھونڈتی رہی
مجھے وہ ساز دل نواز آج تک نہ مل سکا
وہ اودی اودی بدلیاں کہ فخرِ صد بہار تھیں
فلک کی چشم خوں فشاں سے اشک بن کے ڈھل گئیں
دکھائی دے رہی ہے کائنات کچھ لٹی لٹی
دُھویں کی بو سے ہے فضا کی سانس بھی گھٹی گھٹی
زمیں پہ شعلہ باریاں، فلک پہ گڑگڑاہٹیں
کہ سن رہے ہیں چشم و دل نظام ِنوکی آہٹیں
بہار بیت ہی چکی خزاں بھی بیت جائے گی
مگر میں ایک سوچ میں پڑی ہوئی ہوں آج بھی
وہ میری آرزو کی ناؤ کھے سکے گا یا نہیں
نظامِ نو بھی مجھ کو ساز دے سکے گا یا نہیں!؟
میں ساز ڈھونڈتی رہی
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection & Privacy Policy.
Read more